۱۸ آبان ۱۴۰۳ |۶ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 8, 2024
اربعين

حوزہ/ رہبر معظم کے بیانات کے مطابق اربعینِ حسینی شعائر اللہ کے مصادیق میں سے ایک ہے۔آپ فرماتے ہیں:"وہ لوگ جو ایمان سے لبریز اس سفر عشق کے راہی ہیں وہ سچ مچ ایک نیک کام انجام دے رہےہیں۔

ترجمہ: فدا حسین فدا

حوزہ نیوز ایجنسی|

1. اربعین کے مراسم شعائر اللہ کا حصہ ہیں

رہبر معظم کے بیانات کے مطابق اربعینِ حسینی شعائر اللہ کے مصادیق میں سے ایک ہے۔آپ فرماتے ہیں:"وہ لوگ جو ایمان سے لبریز اس سفر عشق کے راہی ہیں وہ سچ مچ ایک نیک کام انجام دے رہےہیں۔ یہ ایک نہایت اہم ہدف ہے۔ (لاتحلوا شعائراللہ۔1) بے شک یہ شعائر اللہ کا حصہ ہے۔ مجھ جیسے افراد جو ان نیک کاموں کو انجام دینے سےقاصر ہیں انہیں یہ فریاد کرنا چاہیے:"یالیتنا کنا معکم فنفوز فوزا عظیما۔"2

بنا برایں جن زائرین کو ان مراسم اور فیوضاتِ الہی میں شرکت کرنے کا شرف حاصل ہواہے انہیں یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ انہیں شعائر اللہ میں سےایک کو انجام دینے کی توفیق عطا ہوئی ہے۔ یہ خود ایک اہم مقصد ہے ۔ یقیناً اللہ تعالی کے ہاں اس کا بہت بڑا اجر و ثواب ہے۔ اس مسئلے کی اہمیت اس وقت بہتر محسوس ہوگی جب ہم استکباری قوتوں کی جانب سے مکتب عاشورا کے خلاف ہونے والے وسیع اور جامع پروپیگنڈے اور بھاری بجٹ سے باخبر ہوں۔

اس کی ایک واضح مثال عصر حاضر (2009 )میں رونما ہونے والے عاشورائی حوادث ہیں جنہیں انقلابِ اسلامی کے رہبرکبیر کی دانشمندی، تیز بینی اور لوگوں کی بصیرت کی وجہ سے بڑی ناکامی ہوئی۔

2۔ اربعینِ حسینی کی ابدیت کا راز

ہر تحریک، مکتب فکر اور پیغام کو تحریفات اور دشمنوں کی دشمنی سے بچانے نیز بعد کی نسلوں تک پہنچانے کےلئے ان کے فلسفے، آثار اور پیغامات کی حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اگر ایسا نہ ہو تو عظیم تحریکیں اور بنیادی افکار بھی تاریخ کے دبیز پردوں کے پیچھے چھپ جاتے ہیں ۔ رہبر معظم کے فرامین کے مطابق اربعین حسینی کے اہم اہداف میں سے ایک یہ ہے کہ مکتب ِحسینی کی ہمیشہ حفاظت کی جائے۔ آپ فرماتے ہیں:

" بنیادی طور پر اربعین کی اہمیت کا راز اس بات میں مضمر ہے کہ اس دن تدبیرِ الہی اور خاندان رسالت کی

حکمتِ عملی کی وجہ سے تحریک حسینی کی یاد ہمیشہ کے لیے امر ہوگئی اور اس تحریک کی بنیاد پڑگئی۔ اگر شہداء

کے لواحقین اور اصلی جانشین عاشورا کے دن امام حسین بن علی علیہما السلام کی شہادت جیسے واقعات کی یاداور

ان کے آثار کو محفوظ نہ رکھ سکیں تو بعد والی نسلیں شہادت کی کامیابیوں سے زیادہ مستفید نہیں ہوں گی۔(3)

رہبر معظم ایک اور جگہ فرماتےہیں:

" ہماری پھوپھی زینب سلام اللہ علیہا نے دو اہم کام انجام دئے۔ ایک کام کوفہ اور شام کے درمیان اسیری

کے دوران انجام دیا۔یہ ان واضح تصورات اور بیانات سے عبارت ہیں جو حق کو آشکار کرنے کا ذریعہ بنے۔

دوسرا کام اربعین کے دن کربلا میں زیارت کے لیے ان کی آمد سے عبارت ہے۔ اس اہم کام سےیہ سبق ملتا

ہے کہ ہمیں ان لوگوں کے مذموم عزائم کو کامیاب نہیں ہونے دینا چاہیے جو اس بہترین رابطے، اثر اور ان اہم واقعات کو فراموش کروانا چاہتے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ وہ اس میں ہرگز کامیاب نہیں ہوں گے۔ جب تک قومیں زندہ ہیں، جب تک زبانیں سچ بولتی ہیں، جب تک مومنین کے دلوں میں جذبہ موجود ہے، اسوقت تک وہ ان واقعات کو فراموش نہیں ہونے دیں گے جیسا کہ وہ اب تک فراموش نہیں ہو سکے ہیں۔(4)

رہبر معظم کے بیانات میں ایک اہم نکتہ پوشیدہ ہے ۔وہ یہ ہے کہ تحریکِ حسینی کو دبانے میں دشمن کی ناکامی کی وجہ قوموں کی بیداری ، قول کی سچائی اور دلوں میں جذبہ ایمانی کی موجودگی ہیں۔آج ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس عظیم تحریک کی حفاظت اور تبلیغ کی جائے۔ خاص طور پر مذہبی مبلغین پر اس حوالے سے بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

آج عاشقان حسینی کو اور ان لوگوں کو جن کے دل امام حسین علیہ السلام کے نظریات کی خاطر دھڑکتے ہیں خاص کر حوزہ ہائے علمیہ کے علماء اور مبلغین کو امت اسلامیہ کی بیداری اور اتحاد ملت کی حفاظت کے راستے میں خوب جدو جہد کرنی چاہئے۔ حضرت ابا عبداللہ ع کی تحریک کے خالص اور تحریف سے پاک مطالب کو سامعین تک پہنچانا اور مذاہب عالم کو ایک دوسرے کے قریب لانا نیز شیعہ سنی جوانوں کے درمیان اتحاد کو مستحکم کرنے کی کوشش کرنا آپ کی اہم ذمہ داریوں میں شامل ہیں۔

عاشورا کی تعلیمات کو قبول کرنے والے دلوں کو دین کی جانب راغب کرنا، جہاد اور شہادت کی ثقافت کو وسعت دینا اور ظلم و انحراف کے خلاف جنگ کرنا آج کی دنیا میں دعوت الی اللہ کے سب سے واضح مثالوں میں شامل ہیں ۔ داعش، وہابیت اور تکفیری تحریکیں مکتبِ حسینی کے عاشقوں کے لیے چیلنج ہیں۔

3.اربعین کی تعلیمات کی رو سے تبلیغ اور ثقافتی سرگرمیوں کی اہمیت

بلا شبہ اربعین کے اہم اسباق میں سے ایک تبلیغ اور ثقافتی کاموں کی اہمیت کا احساس ہے۔ یہ اہم سبق اہل بیت علیہم السلام کی روش اور طرز عمل سے بخوبی اخذ کیا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں حضرت امام خامنہ ای فرماتے ہیں:

امام حسین بن علی علیہما السلام اور آپ کے پرچم دار ساتھیوں کی جدو جہد جتنی سخت اور جانگسل تھی اتنی ہی سخت اورسنگین حضرت زینب اور امام سجاد علیہما السلام اور باقی بزرگوں کی جدو جہد بھی تھی۔ یہ بات واضح رہے کہ ان کی جدو جہد کا میدان عسکری میدان نہیں تھا بلکہ پروپیگنڈے اور ثقافتی حملوں کا میدان تھا۔ہمیں ان نکات پرتوجہ دینے کی ضرورت ہے جس کا درس اربعین دیتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ ہمیں دشمنوں کی عداوت کے طوفان کاسامنا کرتے ہوے حقیقت اور شہادت کییاد کو زندہ زندہ رکھنا چاہیے۔

4. عالم اسلام کے اتحاد کی عظمت

اربعین حسینی کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت جس پر غور کیا جانا چاہیے وہ "عالم اسلام کی عظمت اور اتحاد"سے عبارت ہے۔ عاشورا کے اہم پیغامات اور مقاصد کو دنیا تک پہنچانے کے علاوہ اربعین عالم اسلام میں ناقابل بیان اتحاد اور عظمت کی داستان ہے۔ در حقیقت اسلامی دنیا میں کہاں اتنی بڑی تعداد میں عاشقان ایک جگہ جمع ہوتے ہیں؟ اسلامی اقدار کے کس میدان میں اتنی بڑی تعداد میں عاشقان موجود ہیں؟رہبر معظم بھی اسی مسئلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"ہم اپنے بیانات میں بھی کسی حد تک ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ اس سے عالم اسلام کو عظمت ملے گی۔ یہ ملت اسلامیہ کی شخصیت کو عظمت بخشتا ہے۔ ہم نے جہاں بھی اس امت کے اتحاد کی مثالیں دیکھی ہیں اورجب بھی انسانوں کو ایک ساتھ دیکھا ہے وہاں دنیا میں اسے اسلام اور مسلمانوں کی عزت و آبرو کا باعث بنتے دیکھاہے ۔ یہ طرزِ عمل پیغمبرﷺ کی آبروکا ذریعہ بن گیا۔... اس سال آپ نے دیکھا کہ اربعین حسینی میں کروڑوں لوگ اکٹھے ہوئے۔ مسلمانوں کے ایک گروہ کی یہ بڑی تحریک یقیناً صرف شیعوں کے ساتھ مختص نہیں تھی۔ یہاں سنی بھی تھے جس کی جھلک دنیا میں نظر آرہی تھی۔ انہوں نے سب کا احترام کیا اور سب کو عزت بخشی۔ لوگوں نے اسے دنیا کا سب سے بڑا اجتماع سمجھا۔یہ کون لوگ ہیں ؟یہ وہ لوگ ہیں جو اسلامی مسائل کا مشاہدہ کرتے ہیں ... اس سال اربعین کا واقعہ کربلا میں ایک عجیب واقعہ تھا۔ اسلام کے دشمنوں اور اہل بیت کے دشمنوں نے اپنے حساب سے یہ راستہ مسدود کر دیا تھا۔ دیکھیے کتنی بڑی تحریک وجود میں آئی! جب جسموں کو بھی ایک ساتھ رکھا جاتا ہے تو اس قسم کی عکاسی پائی جاتی ہے۔ با ہم اکٹھے ہونے کے لیے اسلامی ممالک، مسلم اقوام کو ، سنی و شیعہ لوگوں کو اور سنی و شیعہ فرقوں کو ایک دوسرے کے معاملے میں صاف دل ہونا چاہیے۔ مسلمانوں کو ایک دوسرے کے بارے میں شکوہ نہیں کرنا چاہیے اور بد نیتی نہیں رکھنی چاہیے۔ ہمیں ایک دوسرے کی توہین نہیں کرنی چاہیے۔پھر دیکھیں دنیا میں کیا ہو گا !اسلام کو کتنی عزت ملے گی!ہرجگہ اتحاد کا دور دورہ ہوگا۔ "[7]

حوالہ جات:

[1] مائده/ ۲.

[2] بیانات مقام معظم رہبری(حفظه الله) در ابتدای‌ درس‌ خارج‌، 09/09/1394.

[3] بیانات مقام معظم رہبری(حفظه الله)، 29/06/1368‌.

[4] بیانات مقام معظم رہبری(حفظه الله) در‌ دیدار‌ مردم قم، 19/10/1393.

[5] بیانات‌ مقام معظم رہبری(حفظه الله)، 29‌/06‌/1368.

[6] بیانات مقام معظم رہبری(حفظه الله) دیدار با مردم آذربایجان شرقی، 28‌/11/1378.

[7] بیانات‌ مقام‌ معظم رہبری(حفظه الله) در دیدار مسئولان و میہمانان بیست و ہشتمین کنفرانس بین‏المللی وحدت اسلامی‌، 19‌/10/1393. منبع : مبلغان، آبان و آذر 1395- شماره 208؛ موذنیان، داؤد۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .